OnReport

اہم خبریں
  • اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی
  • بھارتی نژاد امیدوار امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر
  • جاپان؛ شدید برفباری میں رن وے پر مسافر طیارے آپس میں ٹکرا گئے
  • رواں برس عالمی معیشت تنزلی کا شکار رہے گی؛ ورلڈ اکنامک فورم
  • خاتون رکن پارلیمنٹ امتحان میں نقل کرتے پکڑی گئیں
  • مشاہد حسین کی بہن البانیہ کی قومی اقتصادی کونسل کی رکن مقرر
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 132 فلسطینی شہید
  • امریکا: شدید برفباری سے نظام زندگی مفلوج، حادثات میں 9 افراد ہلاک
  • غیر قانونی طریقے سے برطانیہ جانے والے 5 تارکین وطن سردی سے ہلاک
اہم خبریں
  • اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی
  • بھارتی نژاد امیدوار امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر
  • جاپان؛ شدید برفباری میں رن وے پر مسافر طیارے آپس میں ٹکرا گئے
  • رواں برس عالمی معیشت تنزلی کا شکار رہے گی؛ ورلڈ اکنامک فورم
  • خاتون رکن پارلیمنٹ امتحان میں نقل کرتے پکڑی گئیں
  • مشاہد حسین کی بہن البانیہ کی قومی اقتصادی کونسل کی رکن مقرر
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 132 فلسطینی شہید
  • امریکا: شدید برفباری سے نظام زندگی مفلوج، حادثات میں 9 افراد ہلاک
  • غیر قانونی طریقے سے برطانیہ جانے والے 5 تارکین وطن سردی سے ہلاک
Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

مفت آٹا

تحریر :ظہیر اختر بیدری
موجودہ حکومت نے پچھلے دنوں ہزاروں من آٹا،عوام میں مفت بانٹا۔ نیب نے خرد برد کے الزامات پر باقاعدہ تحقیقات کا آغازکردیا ہے۔ سچ تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گا، جس کے لیے تھوڑا انتظارکرنا پڑے گا۔ اصل میں یہ مسئلہ نیچے سے نہیں شروع ہوتا بلکہ یہ اوپر سے شروع ہوتا ہے، جہاں ہیرا پھیری ہوتی ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ایسا نظام ہم متعارف کریں گے کہ جس میں ان خرابیوں کا ازالہ ہو۔ سرمایہ دارانہ ملکوں میں جو لوٹ مار ہوتی ہے وہ سرمایہ داروں کے مفاد کے مطابق ہوتی ہے، اگر بغور دیکھا جائے تو یہ نظام بہت فائدہ مند ہے اوپر سے چلتا ہے اور نیچے اپنوں کو ریوڑیاں بانٹتا چلا جاتا ہے۔دنیا میں ارب پتی ایک ایسا طبقہ ہے جو سرمایہ کو دبوچ کر بیٹھ جاتا ہے اور ضرورت کے مطابق خرچ کرتا ہے لیکن اس میں بھی منافع کا عنصر سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے افسوس کہ صورت حال یہ ہے کہ چیک اور ہنڈیاں لے کر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ٹیلی فون پر اربوں روپے کے لین دین ہوتے ہیں۔ کرپٹ نظام کے کرتا دھرتا سب کچھ کھا پی جاتے ہیں اور آخر میں غریب کے ہاتھ ہزار، ہزار والے چند نوٹ ہی لگتے ہیں، جس سے اس کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہوتی ہیں، وہ روز سسک سسک کر مرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے کیا اس دوران ان انسانوں کا وجود نہ تھا جو اس بندربانٹ کو محفوظ نہ کرسکتے ہوں۔معیشت کا پہیہ زیادہ تر مڈل مین کے گرد گھومتا رہتا ہے سیٹھ ساہوکار چیک وغیرہ کے چکر میں بھی نہیں جاتے کروڑوں روپے کا لین دین ٹیلی فون پر ہو جاتا ہے نچلے طبقات معاشی تنگدستی میں زندگی گزارتے ہیں کہ انھیں صبح کا کھانا نصیب ہوا تو شام کے کھانے سے محروم رہ جاتے ہیں یہ جو جبر یا المیہ ہے۔اس کے خلاف عوام کو جاگنا ہوگا اور جدوجہد کرنی پڑے گی؟اصل میں مڈل کلاس بہت اپرچونیسٹ ہوتا ہے وہ اصولوں کو نہیں مانتا ، نہ ایمانداری سے اسے کوئی دلچسپی ہوتی ہے وہ صرف اپنے فائدے کا سوچتا ہے جب صورتحال یہ ہو تو پھر ورکنگ کلاس میں شعور پیدا کرنے کا کام کون کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ ورکنگ کلاس انتہائی اذیت کی زندگی گزار رہی ہے۔اس سلسلے میں ایک منظم مہم کی ضرورت ہے جو ورکنگ کلاس میں شعور پیدا کرے، اسے بتائے اس کی دن بھر کی محنت کی کمائی اوپر بیٹھے ہوئے چور ہڑپ کر جاتے ہیں۔یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے اور اگر ایک منظم مہم کے ساتھ اس میں تبدیلی لانے کی کوشش نہ کی جائے تو ورکنگ کلاس اسی ابتر حالت میں زندگی کی گاڑی گھسیٹتی رہے گی ترقی یافتہ ملکوں میں ورکنگ کلاس بیدار ہو رہی ہے اور احساس ہو رہا ہے کہ اس کی محنت کی کمائی دوسرے چھین رہے ہیں۔ یہ احساس جب تک پاکستانی ورکنگ کلاس میں پیدا نہ ہو اس وقت تک ورکنگ کلاس انتہائی اذیت ناک زندگی گزارتی رہے گی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری باشعور مڈل کلاس اس ظلم کے خلاف اپنے آپ کو منظم کرتی۔ ترقی یافتہ ملکوں میں تو کسی حد تک طبقاتی احساس پیدا ہو رہا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں اس حوالے سے نہ کوئی کام ہو رہا ہے نہ ورکنگ کلاس میں کوئی بیداری پیدا ہو رہی ہے۔اصل میں پسماندہ ملکوں میں قسمت کے لکھے کو حرف آخر تصورکیا جاتا ہے اور اسے حقوق کے حوالے سے جدوجہد کو بے کار، بے محض سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں میں ایسے انقلابی خیالات کو قوت سے دبا دیا جاتا ہے۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ طبقاتی سماج میں ایک منظم طریقہ کار ہوتا ہے جو انسانی محنت کا استحصال کرتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ورکنگ کلاس خود اپنے اندر یہ تبدیلی لائے کہ اس کو لوٹا جا رہا ہے اس کو ختم کرنے کے لیے منظم جدوجہد کرنا پڑے گی۔یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ استحصالی طاقتیں، عوام کے درمیان چھوٹے چھوٹے نظریاتی اختلافات کو بڑھا چڑھا کر اس کو ایمان کا حصہ بنا دیتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Array
50% LikesVS
50% Dislikes

مزید پڑھیں

See More