تحریر :فرزانہ افضل
14 جون کو یونان کے ساحل سمندر کے قریب ساڑھے سات سو تارکین وطن اور مہاجرین سے بھری ہوئی کشتی کے ڈوب جانے کا حادثہ بحیرہ روم کے پانیوں میں میں ہونے والا اس صدی کا بدترین حادثہ قرار پایا ہے۔ گزشتہ چند روز سے اس کشتی پر مسافروں کی بنائی گئی ٹک ٹاک ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جن کو دیکھ کر ہر شخص کا دل زار زار ہوا ہے جب کہ اس المناک حادثے کی خبر سے دنیا کا ہر درد مند دل تڑپ اٹھا تھا ۔ ان ویڈیوز میں کشتی پر سوار مسافروں کے چہروں پر مایوسی، دکھ ، اپنوں کو خیر باد کہہ کر آنے کا درد ، کسی انہونی کا خوف ، بہتر مستقبل کی آس میں ان دکھوں پر قابو پانے کی کوشش، یہ سب ملے جلے جذبات عیاں ہیں ۔ مسافروں کی زیادہ تعداد میں نوجوان اور جوان افراد دکھائی دے رہے ہیں ۔ ان بد نصیب تارکین وطن میں سے 104 افراد کو زندہ بچایا جا سکا ہے جبکہ 500 افراد سمندر کی لہروں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں یا لاپتہ ہیں ۔ تقریبا سو کی تعداد میں عورتیں اور بچے کشتی کے نیچے والے حصے میں تھے ، یقیناً ڈوب چکے تھے ۔ اس ماہی گیری کشتی کی تباہی کی اصل وجہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکی ہے ۔ سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق کشتی کے الٹنے کی وجہ یونانی کوسٹ گارڈ کا رسے کے ذریعے کشتی کو کھینچنا تھا۔ ان کے مطابق یونانی کوسٹ گارڈ نے جب رسے کے ذریعے کشتی کو کھینچا تو مسافروں سے اوور لوڈڈ کشتی اپنا توازن کھو بیٹھی اور الٹ کر ڈوب گئی اور یہ کہ وہ کشتی پر سوار تارکین وطن کی بروقت مدد نہ کر کے ان کو بچا نہ سکے مگر یونانی حکام اس الزام کو جھٹلا رہے ہیں ان کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے کشتی کو مدد کے لیے کئی بار ریڈیو ، سیٹلائٹ اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے پیشکش کی مگر انہوں نے مدد لینے سے انکار کر دیا ۔ اور یہ کہ انہوں نے کشتی کو رسے سے نہیں کھینچا۔ اقوام متحدہ اس حادثے کی چھان بین کر رہی ہے۔ لیبیا کے شہر توبروک سے اٹلی جانے والی اس کشتی پر کثیر تعداد میں پاکستانی سوار تھے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاکستانی حکومت نے چودہ غیر قانونی ٹریول ایجنٹوں یا انسانی سمگلروں کو پکڑ لیا ہے ۔ جبکہ کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں میں نو عدد سمگلر بھی موجود ہیں جنہیں گرفتار کر کے یونان کے شہر کالاماٹا کی کورٹ میں پیش کیا گیا ہے ۔ انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعہ اس الزام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ ان کا ایک بھی کلاینٹ اس کشتی پر سوار تھا ۔ انسانی اسمگلنگ ایک ایسا ڈارک مافیا ہے جس کی شیطانی جڑیں پھیلتی چلی جا رہی ہیں اور جس پر قابو پانا برطانیہ، یورپ، پاکستان اور دیگر ملکوں کیلئے ابھی تک ناممکن ثابت ہو رہا ہے ۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ معصوم لوگ ان غیر قانونی ایجنٹوں کے ہتھے کیوں چڑھ جاتے ہیں ۔ لوگ مختلف ملکوں سے معاشی مجبوریوں اور بیروزگاری ، دہشت گردی کا خوف ، جنگ کی تباہ کاریاں ایسی وجوہات ہیں جو لوگوں کو اپنا وطن چھوڑ کر غیر قانونی طریقوں سے خطرناک راستوں کے ذریعے اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر یورپ اور برطانیہ کا رخ کرتے ہیں تاکہ اپنے خاندان کے لیے بہتر معاش اور محفوظ مستقبل حاصل کیا جا سکے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ، بے روزگاری اور غربت ملک اور وطن چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکومت کو ملکی معیشت میں استحکام پیدا کرنے کی ضرورت ہے مہنگائی کی شرح کم ہو لوگوں کو روزگار مہیا کیا جائے۔ ملک میں کرپشن کا خاتمہ ہو۔ برطانیہ کی غیر قانونی مہاجرین اور تارکین وطن کیلئے بنائی گئی امیگریشن پالیسی تنقید کا شکار ہے ۔ نومبر 2022 میں ایک ڈنگی کشتی انگلش چینل کراس کرنے کی کوشش میں لہروں کی تاب نہ لا سکی اور ڈوب گئی ۔ ایسا ہی ایک حادثہ 2021 میں بھی پیش آیا۔ برطانیہ کی ہوم سیکرٹری سویلا براورمین کی امیگریشن پالیسی کے مطابق غیر قانونی مہاجرین کو برطانیہ میں پناہ نہیں دی جائے گی ان کو پکڑ کر مہاجرین کے ڈیٹینشن سنٹر میں عارضی طور پر کارروائی مکمل ہونے تک رکھ کر ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا یا ان کو کسی تیسرے ملک میں روانہ کر دیا جائے گا جیسا کہ افریقہ کے ملک روانڈا سے یوکے کی حکومت نے ڈیل کی ہے برطانیہ کی حکومت نے فرانس سے بھی ڈیل کر رکھی ہے کہ وہ غیر قانونی مہاجرین کو فرانس کے ساحل سمندر پر کنٹرول کریں ۔ اور انسانی سمگلروں پر کریک ڈاؤن کیا جائے۔ مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ یوکے میں غیر قانونی مہاجرین کے ساتھ ڈیٹینشن سینٹرز میں بہت برا سلوک کیا جاتا ہے ۔ گنجائش سے زیادہ افراد بھر دیۓ جاتے ہیں اور خوراک اور ادویات کی فراہمی ناکافی ہوتی ہے ۔ انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے تمام اقدامات سے بڑھ کر ان وجوہات کا خاتمہ کرنا ضروری ہے جو اس مافیہ کی جڑوں میں پانی اور خوراک کی ترسیل کر رہے ہیں ۔ جن ملکوں میں سالہا سال سے جنگیں لگی ہیں ان جنگوں کو بڑھاوا دینے کی بجائے ان کو روکنے کی ضرورت ہے جہاں پر انسانی حقوق کی پامالی اور مظالم ہو رہے ہیں ان پر کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ہر ملک کی حکومت کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو جانی ، معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کرے تاکہ وہ اپنے پیاروں سے بچھڑ کر جان ہتھیلی پر رکھ کر غیر قانونی راستوں سے دوسرے ملکوں میں جانے کا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔