OnReport

اہم خبریں
  • اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی
  • بھارتی نژاد امیدوار امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر
  • جاپان؛ شدید برفباری میں رن وے پر مسافر طیارے آپس میں ٹکرا گئے
  • رواں برس عالمی معیشت تنزلی کا شکار رہے گی؛ ورلڈ اکنامک فورم
  • خاتون رکن پارلیمنٹ امتحان میں نقل کرتے پکڑی گئیں
  • مشاہد حسین کی بہن البانیہ کی قومی اقتصادی کونسل کی رکن مقرر
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 132 فلسطینی شہید
  • امریکا: شدید برفباری سے نظام زندگی مفلوج، حادثات میں 9 افراد ہلاک
  • غیر قانونی طریقے سے برطانیہ جانے والے 5 تارکین وطن سردی سے ہلاک
اہم خبریں
  • اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلانا شروع کردی
  • بھارتی نژاد امیدوار امریکی صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر
  • جاپان؛ شدید برفباری میں رن وے پر مسافر طیارے آپس میں ٹکرا گئے
  • رواں برس عالمی معیشت تنزلی کا شکار رہے گی؛ ورلڈ اکنامک فورم
  • خاتون رکن پارلیمنٹ امتحان میں نقل کرتے پکڑی گئیں
  • مشاہد حسین کی بہن البانیہ کی قومی اقتصادی کونسل کی رکن مقرر
  • غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری سے مزید 132 فلسطینی شہید
  • امریکا: شدید برفباری سے نظام زندگی مفلوج، حادثات میں 9 افراد ہلاک
  • غیر قانونی طریقے سے برطانیہ جانے والے 5 تارکین وطن سردی سے ہلاک
Facebook
Twitter
LinkedIn
WhatsApp

نام نہاد شعراء کو میرا خراج تحسین

تحریر:فرزانہ افضل
دو چار معیاری نظمیں بھی خرید شدہ شاعری سے چھپی ہوئی کتابوں سے لاکھ درجے بہتر ہوتی ہیں کیونکہ وہ لکھنے والے کی اپنی کاوش اور اپنا خیال ہوتی ہیں۔ ان نقلی شاعروں کی طرح نہیں، جو پاکستان یا انڈیا میں غریب شاعروں سے چند ہزار روپوں کے عوض شاعری خرید کر اور کتابیں شائع کروا کر سستی شہرت اور جھوٹی عزت کے حصول اور کمیونٹی پر اور ادبی حلقوں میں دھاک بٹھانے کے لیے ہمہ دم بیقرار رہتے ہیں۔ علم میں آیا ہے کہ ایسے ادارے موجود ہیں جو شاعری اور ادب کی کتابوں کی لکھوائی اور اشاعت کے پیکیج آفر کرتے ہیں۔ ان جعلی شاعروں کے ڈھکوسلے تب کھل جاتے ہیں جب کوئی اپنی شاعری کی اصلاح کے لیے ان سے رابطہ قائم کرے ، تو ان کے ہاں خاموشی چھا جاتی ہے ایک لفظ کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں رہتے کیونکہ خود کا ٹیلنٹ تو کوئی ہے نہیں۔ اچھا شاعر ہونے کا کرائٹیریا دو چار نظمیں یا 15 کتابیں نہیں ہوتیں ۔ اچھی شاعری اچھی ہوتی ہے اور وہ تب مزید اچھی ہوتی ہے جب وہ اصلی ہو اور لکھنے والے کے نام سے ہی پڑھی جائے اور شائع ہو ۔ ویسے اتنی کتابیں تو مرزا غالب نے بھی نہیں لکھی تھیں۔ مرزا غالب کی اکلوتی اشاعت دیوان غالب کو ہندوستان کی الہامی کتاب وید مقدس کے مترادف ٹھہرایا گیا ۔ مرزا غالب کا شائع شدہ صرف ایک دیوان ہے۔ جو پورے اردو ادب پر حاوی ہے ۔ جب کہ انہوں نے اپنا لا تعداد کلام ضائع کر دیا اور کبھی نہیں چھپوایا۔ ان ادب اور شاعری کے ٹھیکے داروں کا گھمنڈ اور تکبر اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بجائے یہ نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کریں ان کی دل شکنی کی جاتی ہے ۔ جو شاعر دوسروں کی شاعری کی اصلاح کرنے کے لائق نہیں وہ کسی کی شاعری کے معیار کا تعین کیسے کر سکتے ہیں اور کس حیثیت سے کر سکتے ہیں۔ ان معززین کی حیثیت تو یہ ہے کہ 20 بندوں کے پروگرام میں کھانا کھلانے کے لیے بھی دس جگہ سے سپانسر لیے جاتے ہیں اور کونسل کی فنڈنگ علیحدہ ،خوب جیبیں بھر رہے ہیں۔ ان کے نام نہاد عالمی مشاعروں میں سٹیج پر بیٹھنے والے چند افراد اور ان کے خود سے زبردستی سے شامل شدہ ممبران کے علاوہ کمیونٹی سے کم ہی لوگ شرکت کرتے ہیں۔ ان خود پسند اور سستی شہرت کے ڈسپیریٹ لوگوں کے غرور کا یہ عالم ہے کہ اگر انہیں پروگراموں میں فرنٹ ٹیبل اور فرنٹ سیٹوں پر نہ بٹھایا جائے تو تماشا کھڑا کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لارڈ میر کو کیوں اتنی اہمیت دی جاتی ہے وہ تو ایک سال کے لیے ہوتے ہیں جبکہ ہم یہاں سدا رہنے والے ہیں۔ میئر اور لارڈ میئر اور ایم پی یا سیاست دان، یہاں پر کسی سفارش کے ذریعے نہیں بنتے، ان کی اسٹیٹس اور پوزیشن کے پیچھے ان کی برس ہا برس کی محنت اور کمیونٹی کے لیے خدمات ہوتی ہیں۔ مگر یہ نقلی شاعر خود کو ان سے بڑھ کر سمجھتے ہیں۔ کاش ان کو کوئی یہ بتا دے کہ پیٹھ پیچھے ان کا کس قدر مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ یہ ڈھکوسلے باز لوگ اعلٰی تعلیم یافتہ اور ٹیلنٹڈ افراد سے خوف کھاتے ہیں۔ اور شدید جلن اور حسد کا شکار ہوتے ہیں ۔ ان محنتی لوگوں کی کامیابی سے جلتے ہیں ۔ لہذا اس کا اظہار ان سے بدتمیزی کر کے اور ان کے خلاف کیمپین چلا کر کرتے ہیں اور ان کے پروگراموں میں ستائش باہمی کا جو مظاہرہ کھلم کھلا دیکھنے میں آتا ہے ، اس کے تو کیا کہنے۔ جو لوگ ایک شاعر کے سٹیج پر بیٹھے ہوتے ہیں وہی لوگ دوسرے روز انہی میں سے کسی دوسرے شاعر کے سٹیج پر رونق افروز ہوتے ہیں یعنی تو میری پیٹھ کھجا میں تیری پیٹھ کھجاتا ہوں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسٹیج پر بیٹھنے والوں میں سے ایک آدھ تو ایسے بھی ہیں جو اردو زبان، تعلیم اور شعر و ادب سے قطعی نابلد ہیں مگر ان ادبی تنظیموں میں بڑی پوزیشنز پر ہیں۔ ان نام نہاد مہذب لوگوں کی تہذیب تو یہ ہے کہ کسی دوسرے کے ایونٹ میں بھی ہوں تو وہاں پر تماشا لگا لیتے ہیں کہ ہمیں اپنے پروگرام میں ایک ٹیبل سے دوسری جگہ کیوں شفٹ کیا، ہر جگہ سین create کرنے میں ماہر ہیں بھئی کوئ گلہ شکوہ ہے تو فون پر بات کر لیں لوگوں کے سامنے کیوں تماشہ کر رہے ہیں۔ یہ لوگ دوسروں کو اخلاقیات کا سبق پڑھائیں گے ۔ صاحب خیال، صاحب دل ادیب اور شعراء تو خوشبوئیں بکھیرتے ہیں جبکہ ان جھوٹے تکبر اور نخوت کی بو آتی ہے۔ کوئی سلیم العقل انسان بتا دے کہ یہ اصحاب کون سا شاعرانہ خیال رکھتے ہیں جنہوں نے ادب اور شاعری کو تجارت بنا رکھا ہے ۔ مولانا روم نے فرمایا “انجیر ہر پرندے کی غذا نہیں ہوتی” اسی طرح شاعری بھی ان کے بس کا روگ نہیں۔ ادیب اور شاعروں کا مقصد نسلوں کی آبیاری کرنا ہے اگر افسوس کہ ہمارا ادب اب چند مخصوص تجارت پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گیا ہے۔ یہ شاعری یوں خریدتے ہیں گویا گھریلو استعمال کی کوئی چیز یا پھر کوئی نیا جوڑا یا نئی سن گلاسز۔ “کامیابیاں کمانا سیکھیے خریدنا نہیں” اگر آپ کی تعریف میں کمی رہ گئی ہو تو بتائیے مزید تعریف کر دوں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

Array
100% LikesVS
0% Dislikes

مزید پڑھیں

See More