تحریر:سمیرااشرف
مریم نوازکی پیدائش ،خاندان اور تعلیم پر ایک نظر
مریم نواز 28 اکتوبر 1973ءکو لاہور میں پیدا ہو ئیں ،مریم نوازکے والد میاں محمد نوازشریف 3مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے ،مریم نوازکی والدہ محترمہ کلثوم نوازبھی ممبر اسمبلی رہ چکی ہیں ،مریم نوازاپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہیں ،مریم نوازکے دوبھائی حسین نوازشریف،حسن نوازشریف اور ایک بہن عاصمہ نوازہیں ،مریم نوازکے دادہ میاں محمد شریف ایک صنعت کار اوراتفاق گروپ کے بانی تھے ،مریم نوازکے پرنانا گاماپہلوان ایک پہلوان تھے ،مریم نوازکا ننھیال اور ددھیال امرتسر میں ہے ،مریم نوازکے چچا میاں محمد شہبازشریف کئی دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب اور ایک دفعہ وزیراعظم پاکستان رہ چکے ہیں ،میاں محمد شہبازشریف اب کی بار بھی نامزد وزیر اعظم پاکستان ہیں ،مریم نوازکے چچا زاد بھائی حمزہ شہبازممبر قومی اسمبلی اورایک دفعہ وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں،مریم نوازنے اپنی ابتدائی تعلیم کانونٹ آف جیسس اینڈ میری لاہور سے حاصل کی۔ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں ایف ایس سی کی۔ 1980ء کی دہائی کے آخر میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ مریم نواز نے پنجاب یونیورسٹی سے انڈرگریجویٹ تعلیم مکمل کی ،2014ء میں، ایم اے (انگریزی ادب) میں ماسٹر کی ڈگری لی،مریم نواز نے 1992ء میں 19 سال کی عمر میں محمد صفدر اعوان سے شادی کی ، صفدر اعوان سے ان کے تین بچے ہیں
مریم نوازکی جدوجہد
پاکستان کے 76 سالہ دور میں ایک نئی اور منفرد تاریخ رقم ہو گئی، بھرپور سیاسی جدوجہد، انتھک محنت اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی پاکستان کی” آئرن لیڈی” مریم نواز نے تخت پنجاب کی بڑی ذمہ داری سنبھال لی۔عوام نے مریم نواز کو نواز دیا، مسلم لیگ ن کی جانب سے پہلی خاتون وزیراعلیٰ پنجاب بننے والی مریم نواز جارحانہ سیاست کی علمبردار، لہجہ بھرپور، سیاسی حکمت عملی بھی شاندار ہے، مریم نواز نے تعلیمی اداروں میں اپنی تقاریر سے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا۔مریم نواز کو 2017ء کیلئے دنیا کی 100 بااثر خواتین میں شامل کیا گیا، پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے جارحانہ سیاست اپنائی، مریم نواز سڑکوں پر نکلیں تو کراؤڈ “پُلر” کہلائیں، سیاسی مخالفین کو جرات سے للکارا، مریم نواز والد کے ساتھ ڈٹ کھڑی ہوئیں اور سیاسی جانشین کہلائیں۔مریم نواز نے جیل میں بی کلاس کی سہولتیں لینے سے انکار کیا اور عام قیدیوں کی طرح قید کاٹی، مریم نواز نے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر مزاحمت کے بیانیہ سے پیچھے نہ ہٹیں، مریم نواز نے والدہ کلثوم نواز کی غیر موجودگی میں ان کا لاہور میں ضمنی الیکشن بھی جیتا، ملک بھر میں ریلیاں نکالتی رہیں اور جلسوں میں حکمران وقت کو للکارتی رہیں۔مریم اپنے والد کو واپس لائیں اور 2024ء کا انتخابی محاذ بھی دبنگ انداز میں سنبھالا، مسلم لیگ ن نے مریم نواز کو عام انتخابات 2013ء کے دوران ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا منتظم مقرر کیا۔مریم نواز کو 22 نومبر 2013ء کو وزیراعظم یوتھ پروگرام کا انچارج مقرر کیا گیا، مریم نواز نے نوجوانوں کو لیپ ٹاپ اور سکالر شپس دلائے، پارٹی کو یوتھ میں مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔1999ء میں نوازشریف حکومت برطرف ہوئی تو مریم نواز پر بھی مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، چارماہ تک گھر میں نظر بندی کے بعد سعودی عرب جلاوطن کر دیا گیا، نومبر 2011ء میں نواز شریف نے انہیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا گرین سگنل دیا۔پانامہ پیپرز کے فیصلے کے بعد مریم نواز نے جارحانہ سیاست اپنائی، 2018ء کے انتخاب میں انہیں قومی اور صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا مگرانہیں اس سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں 7 سال سزا سنا دی گئی، مریم نواز کو 10 سال کے لئے نااہل بھی قرار دیا گیا اور وہ الیکشن نہ لڑ سکیں۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں جب لیگی قیادت جیلوں میں تھی تو مریم نواز نے پارٹی کی انتخابی سیاست کا بھی محاذ سنبھالا، ضمنی انتخابات کا میدان لگا تو مریم نواز کی قیادت کے باعث ہی پنجاب کے تمام قومی و صوبائی حلقوں میں ن لیگ کو کامیابی ملی، یہی نہیں خیبر پختونخوا میں بھی ن لیگ نے بعض حلقوں میں میدان مارا۔مریم نواز سیاسی جدوجہد کے لئے کراچی پہنچیں تو ہوٹل میں کمرے کا دروازہ توڑ کر ان کے خاوند کو گرفتار کیا گیا مگر وہ پھر بھی خوفزدہ نہ ہوئیں، نیب مقدمات میں خود کو پیش کرنے لئے ٹھوکر نیاز بیگ آفس پہنچنے پر ان کے قافلے پر فائرنگ اور پتھراؤ کیا گیا لیکن وہ اپنے بیاینہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹیں۔مریم نواز کی تقاریر نشر کرنے پرپابندی عائد ہوئی لیکن وہ ملک بھر میں ریلیاں نکالتی رہیں اور جلسوں میں حکمران وقت کو للکارتی رہیں، سیاسی مخالفت میں ان پر حکومت نے ایسے مظالم ڈھائے کہ ای سی ایل میں نام ہونے کی وجہ سے والد سے تین سال نہ مل سکیں، اور تو اور اپنے بیٹے کی شادی میں بھی شریک نہ ہوسکیں۔مسلم لیگ ن کی قیادت نے مریم نواز کی صلاحیتوں اور لیڈرشپ کے اعتراف میں انہیں پارٹی کا چیف آرگنائزر اور سینئر نائب صدر مقرر کیا، باپ کی جانشین بیٹی نے سیاست کی بساط پر ایسی چالیں چلیں کہ والد کو وطن واپس لائیں اور 2024ء کا انتخابی محاذ بھی دبنگ انداز میں سنبھالا اور مسلم لیگ ن کو پنجاب اور وفاق میں سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت بنایا۔اب معاملہ حکومت سازی کا آیا تو پارٹی قیادت نے مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے نامزد کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد یوں پاکستان اور پنجاب کی نئی سیاسی تاریخ رقم ہو گئی ہے۔
مریم نواز کی سیاسی جدوجہد دیکھ کر بلا شبہ کہا جا سکتا ہے کہ
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سوبار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
مریم نوازوبطور وزیراعلیٰ
پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے 26 فروری کو پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بن کر نئی تاریخ رقم کردی۔مریم نواز ملک کے چاروں صوبوں کی تاریخ میں پہلی وزیر اعلیٰ خاتون ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ رکن اسمبلی بھی پہلی بار بنی ہیں۔مریم نواز نے 2013 کے بعد منظم انداز میں سیاست میں رکھا، اس سے قبل انہیں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی کی وجہ سے شہرت حاصل تھی۔مریم نواز نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پنجاب اسمبلی کی جنرل نشست پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد 26 فروری کو انہوں نے 371 کے ایوان میں سے 220 ووٹ لے کر نئی تاریخ رقم کی۔مریم نواز سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے بعد پہلی خاتون ہیں جو اعلیٰ حکومتی عہدے پر پہنچی ہیں۔
مریم نوازکے سیاسی سیاسی عروج کا سفر
ملک کے سیاسی میدان میں شاید یہ مریم نواز کا پہلا قدم تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے دوران انہوں نے پارٹی کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ انتخابات کے دوران اور بعد میں مسلم لیگ (ن) کے سوشل میڈیا ونگ کی سربراہی بھی کی۔ 2014 میں مریم نواز کو وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن بنادیا گیا لیکن ایک سال بعد ان کی تقرری کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا جس کی وجہ سے وہ استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئیں۔ بعدازاں انہیں پنجاب حکومت کی جانب سے طلبہ میں لیپ ٹاپ تقسیم کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا حالانکہ اس وقت وہ صوبے یا مرکز میں کسی منتخب عہدے پر فائز نہیں تھیں۔2016ء میں جب وزیراعظم نواز شریف کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی تب وزیراعظم ہاؤس یا وزارتِ اطلاعات کوئی بھی اس وقت کی سب سے بڑی خبر اور اس حوالے سے قیاس آرائیوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتا تھا۔ ایسے میں مریم نواز سامنے آئیں اور میڈیا کی نظروں کا مرکز بن گئیں۔ وہ اپنے ٹوئٹر (ایکس) اکاؤنٹ کے ذریعے عوام تک والد کی صحت کے حوالے سے باقاعدگی سے اپ ڈیٹس فراہم کرتی رہیں۔ سرجری کے فیصلے سے لےکر سرجری کے بعد وزیراعظم کی پہلی تصویر ٹوئٹ کرنے تک، مریم نواز کی ٹوئٹر فیڈ نے اس حوالے سے ہر منٹ کی تفصیلات فراہم کیں کہ وزیراعظم انتہائی نگہداشت یونٹ میں کتنا وقت گزاریں گے اور ساتھ ہی ان کی گھر واپسی کے منصوبوں سے بھی آگاہ کیا۔اس وقت بھی حکومتی پیغام رسانی پر مریم نواز کے کنٹرول پر کچھ آوازیں اٹھیں لیکن یہ معاملہ بہت بعد میں اس وقت سامنے آیا کہ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیراطلاعات پرویز رشید کے ساتھ ان کی فون پر ہونے والی بات چیت کی آڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ بعض ٹی وی چینلز کو اشتہارات نہیں دینے کی ہدایات جاری کر رہی تھیں۔ مریم نواز نے بعد میں اعتراف کیا کہ آڈیو کلپ درست تھا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اپنا دفاع کیا کہ وہ پارٹی اشتہارات کا حوالہ دے رہی تھیں۔